آہ ۔۔۔۔۔۔ اقبال یوسفی
ہفت روزہ مزدور 2 فروری 2008
تحریر: محمد بدر منیر
اٹھارہ اور انیس جنوری کی درمیانی شب خواتین کی گریہ و زاری سے میری انکھ کھل گئی. میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔۔۔۔۔۔ کسی نے بتایا۔۔۔۔۔۔ اقبال فوت ہو گئے۔۔۔۔۔۔ یہ ایسی اطلاع تھی جس نے مجھے ذہنی طور پر درہم برہم کردیا۔ اگرچہ زندگی ایک فانی حقیقت کا نام ہے۔ لیکن اس پر مجھے یقین کرنے میں تامل تھا کہ اس کی صحت بھی بظاہر ٹھیک ٹھاک تھی اور ابھی اس نے بمشکل 60 کا زینہ عبور کیا تھا۔ اور پھر تھوڑی کے بعد اس کے بے جان جسد خاکی کو دیکھا جو خون آلود تھا۔ تو میں ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بن گیا۔ کئی وسوسوں نے ذہن میں سر اٹھایا کہ کہیں یہ کوئی اور واردات نہ ہو۔۔۔۔۔۔ پھر ڈاکٹر کا یہ اعلان کسی نے سنایا کہ اقبال کو السر کی دیرینہ شکایت تھی اور السر پھٹنے کے باعث یہ سانحہ پیش آیا۔ اقبال کو بھی اپنے مرض کو خود سے پوشیدہ رکھنے کی عادت تھی اور یہ بھی ہمارا ایک خاندانی ورثہ ہے جو جدامجد سے باحفاظت منتقل ہوتا آیا ہے۔ پھر تجہیز و تکفین سے تدفین تک سارے مرحلے طے ہوتے گئے اور میں سکتے کی حالت میں ان مرحلوں سے گزرتا گیا۔
اقبال۔۔۔۔۔۔ اقبال یوسفی کی ناگہانی جدائی نے مجھے اور دیگر اہل خاندان کو سخت افسردہ کر دیا۔ عزیز و اقارب کی جانب سے تعزیتی الفاظ زخم کو پھر سے ہرا کر دیتے۔۔۔۔۔۔ اقبال یوسفی جو والدین اور پورے خاندان کا لاڈلا تھا۔ اپنے دوستوں میں بے حد مقبول تھا۔ اپنے طالب علمی کے زمانے کے دوستوں اور اخباری کارکنوں کے لیے ہر وقت فکر مند رہتا۔ اور اپنے مسائل سے بے نیاز ہو کر دوسروں کے مسائل حل کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتا تھا۔ سب رنگ کے مدیر شکیل عادل زادہ اس کے اردو کالج کے ہم سبق بھی تھے۔ جب سب رنگ کئی کئی ماہ غوطے کھا جاتا تو وہ مضطرب ہو کر شکیل کے ہاں ٹیلی فون کر کر کے اس کا ناک میں دم کر دیتا۔ کسی اخباری کارکن کا کوئی مسئلہ ہوتا تو اس وقت تک ارام سے نہیں بیٹھتا تھا جب تک کہ اس کارکن کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔ وہ اپنی امدنی کا بیشتر حصہ انہی لوگوں پر خرچ کر دیتا۔ اس نے نہ جانے کتنے کارکنوں کے لیے انہیں پلاٹ اور مکان قرض دلانے کے لیے جدوجہد کی لیکن خود کرائے کے مکان میں دائمی اجل کو لبیک کہا۔ ابھی حال ہی میں "نوائے وقت" میں شائع شدہ اپنے مضمون میں صوبہ سرحد کے ایک شہید صحافی کے اہل خاندان کو پاکستان فری لانس جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے کفالت کی مکمل ذمہ داری ادا کرنے کی پیشش کی تھی۔۔۔۔۔۔
پاکستان فری لانس جرنلسٹس ایسوسی ایشن بتائی تھی اس کے تمام اخراجات وہ اپنی جیب سے ادا کیا کرتا تھا۔ صرف اخباری کارکنوں اور ساتھیوں تک اس کی دل سوزی اور ہمدردی محدود نہ تھی بلکہ جہاں سے بھی کوئی دردناک خبر آئی وہ بے چین ہو جاتا اور ان کے لیے ہر ممکن جدوجہد کرتا۔ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں اور کشمیر کے زلزلہ زدگان کے لیے نوائے وقت کے ریلیف فنڈ میں اقبال یوسفی نے عطیات جمع کرانے میں بساط بھر کام کیا۔
اقبال یوسفی۔۔۔۔۔۔ میرا بھائی تھا اور ہم سب کا لاڈلہ تھا۔ اس لاڈلے بھائی کے اندرونی دکھ کو کوئی بھی سمجھ نہ پایا۔ اس کے ساتھی بھی نہیں جن کے ساتھ اس کا سب سے زیادہ وقت گزرتا تھا۔ وہ ان کے درمیان سدا بہار خوش خوش رہتا۔ لیکن جب اس کی جدائی کا وقت آیا تو چند ہی لوگ اس کے پاس تھے۔ اگرچہ سینکڑوں افراد نے اس کو اخری منزل تک پہنچانے کے لیے ساتھ دیا۔ لیکن یہی وہ تھے پاس پڑوس کے لوگ تھے۔ یہ وہ عام لوگ تھے جن کے مسائل حل کرنے کے لیے وہ اپنی پیشاورانہ ذمہ داریوں کے دائرے سے باہر کوشش کرتا اور سبھی اس کی تعریف ہو توصیف کر رہے تھے اور گریہ کنا تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد بدر منیر
