روزنامہ امروز 12 فروری 1991
انٹرویو نوید بخاری
محمد اقبال یوسفی ملک کے آزاد صحافیوں کی واحد نمائندہ تنظیم پاکستان فری لانس جرنلسٹس ایسوسی ایشن (رجسٹرڈ) کے بانی و صدر ہیں۔ یہ تنظیم قلم کے مزدوروں خواہ وہ صحافی ہوں ادیب، شاعر یا دانشور ان کے دکھ و درد بانٹنے میں پیش پیش ہے۔ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے لکھاریوں کا ایسا وسیع کنبہ جو کسی ادارے کے باقاعدہ ملازم تو نہیں ہیں مگر صحافت کے میدان میں سرگرم عمل ہیں۔ ان کے حقوق کے تحفظ اور مسائل کے حل کی ذمہ داری پاکستان فری لانس جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے اٹھا رکھی ہے۔ مسٹر اقبال یوسفی اپنے رفقاء کے ساتھ نہایت ثابت قدمی اور پرخلوص طریقے سے حصول منزل کے لیے عملی جدوجہد کر رہے ہیں۔
انہوں نے ایک ملاقات میں بتایا کہ تنظیم کے زیادہ تر ارکان محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اتنی آمدن نہیں حاصل کر پاتے کہ وہ ورکنگ جرنلسٹس کو حاصل سہولتوں سے استفادہ کر سکیں۔ اس جانب پاکستان ٹائمز کے سابق چیف ایڈیٹر اے ٹی چوہدری نے بھی ان کی توجہ مبذول کرائی۔ لہذا انہیں یہ تنظیم بنانے کا خیال آیا چنانچہ فری لانس صحافیوں سے رابطہ کر کے تنظیم کے باقاعدہ قیام کا اعلان کر دیا گیا جس کا ملک بھر میں بے حد خوشگوار رد عمل ہوا تقریبا ملک بھر سے رکنیت کے خواہشمندوں نے خطوط ارسال کیے۔ اور صرف پنجاب ہی سے 70 سے زائد فری لانس صحافیوں نے رکنیت حاصل کی۔ اس وقت قومی اخبارات و جرائد میں لکھنے والے آزاد صحافیوں کی اکثریت اس تنظیم کی رکن بن چکی ہے۔ مسٹر اقبال یوسفی نے کہا کہ مسٹر اے ٹی چوہدری نے بھی پاکستان ٹائمز کو خیر باد کہنے کے بعد ایسوسی ایشن کے رکن بنے تھے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ تنظیم نے اب تک فری لانس صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔
بزرگ صحافی مقبول احمد جو ریڈیو مانیٹرنگ پر مامور تھے جب علیل ہوئے تو بڑی تیزی سے ان کی مالی اعانت کا سلسلہ کیا گیا۔ بیس ہزار روپے نقد کے علاوہ لاہور کے سب سے بڑے ہسپتال میں مفت علاج معالجہ کی سہولتیں بھی دلوائی گئیں۔ بعد ازاں ان کے لیے مستقل طور پر ماہانہ وظیفہ مقرر کرایا گیا۔ ایک اور معروف صحافی اے ڈی مرزا کی رخلت پر ان کے لواحقین کے لیے خصوصی مالی امداد دلوائی گئی۔ ملتان کے ایک شاعر قمر انصاری کا کاروبار تباہ ہو جانے کے باعث کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے انہیں بیس ہزار روپے کا چیک دلوایا گیا۔ ممتاز صحافی فاتح فروخ جو تنظیم کے رکن بھی تھے کہ انتقال کے بعد لواحقین کی مالی اعانت کی متعلقہ محکمہ کو سفارش کی جس کا بے حد مثبت جواب ملا۔ مرحوم کے بچوں کے لیے رہائشی پلاٹ اور گزارا الاونس کے لیے بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ تنظیم نے بعض نامور صحافیوں کے نام پر صوبائی دارالحکومت کی معروف شاہراؤں کو منسوب کرنے کی تحریک بھی چلائی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ مرغوب صدیقی، اے ٹی چودری، محمد ادریس ،مقبول احمد اور وقار انبالوی جیسے بلند پایہ صحافیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بعض شاہراؤں کے نام ان سے منسوب ہوں۔ یہ معاملہ بلدیہ لاہور کے پاس آ چکا ہے اور اس پر جلد موافقانہ رد عمل کی توقع ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صحافیوں کی ان کی زندگی میں بڑی عزت اور توقیر کی جاتی ہے لیکن ان کی وفات کے بعد انہیں اور لواحقین کو بھلا دیا جاتا ہے اور اپنے ہی ساتھی بے حسی کا مظاہرہ کریں تو انتہائی دکھ پہنچتا ہے۔ ہماری تنظیم نے نئی روایت ڈالی ہے جب بھی کسی صحافی کا انتقال ہوا اس پر فوری تعزیتی اجلاس بلایا گیا اور مرحوم کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی کسی صحافی پر کوئی بھی مصیبت ٹوٹی تو ہماری تنظیم نے اس کی نہ صرف خبرگیری کی بلکہ اس کی ہر طرح مدد اور دل جوئی بھی کی۔ ہماری تنظیم نے آج تک جو بھی خدمات انجام دی ہیں وہ بغیر کسی بیرونی امداد اور سرپرستی کے محض انسانی بنیادوں پر صحافی برادری کے لیے کی ہیں۔ مسٹر اقبال یوسفی نے بتایا کہ یہ واحد تنظیم ہے جو رکنیت حاصل کرنے والے فری لانس صحافیوں کو باقاعدہ ممبرشپ کارڈ جاری کرتی ہے جو محکمہ اطلاعات سے تصدیق شدہ ہوتے ہیں اس کے علاوہ ہماری تنظیم کو انٹرنیشنل یونین آف جرنلسٹس کی رکنیت بھی حاصل ہو چکی ہے اور مزید مراعات کے حصول کے لیے ضروری اقدامات بروئے کار لائے جا چکے ہیں انہوں نے بتایا کہ صحافی برادری میں بلا امتیاز سب کی بھرپور خدمات کرنا ہی ان کا نصب العین ہے۔
انہوں نے کہا کہ نوجوان صحافی تسلیم احمد تصور کے علاج کے لیے اپیل کی ہے کہ ان کا علاج اندرون ملک ممکن نہیں اس اس لیے فوری طور پر بیرون ملک علاج کرانے کے لیے فنڈز مہیا کیے جائیں اس سلسلے میں خاطر خواہ نتائج برامد ہونے کی امید ہے۔
نیشنل پریس ٹرسٹ کے بارے میں انہوں نے اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور ان کے ساتھی این پی ٹی توڑنے کے خلاف ہیں۔ اور ایسی ہر تجویز کی مخالفت کرتے چلے آرہے ہیں۔ این پی ٹی کے اخبارات نے تجربہ کار اور منجھے ہوئے صحافی موجود ہیں جن کی قابلیت اور اہلیت مسلمہ ہے۔
ماضی میں بھی ان اخبارات سے بر صغیر کے چوٹی کے صحافی وابستہ رہے ہیں صرف انتظامی معاملات قابل توجہ ہیں انتظامی امور کی وجہ سے بعض اوقات این پی ٹی کے اخبارات بحرانی کیفیت سے دوچار ہو جاتے ہیں این پی ٹی توڑنے سے ہزاروں کارکنوں کا ذریعہ معاش بند ہوگا اور کارکنوں کو متبادل ذرائع آمدن بھی میسر نہیں ہوں گے اور یہ اقدام بے چینی اور مایوسی پھیلانے کا باعث بنے گا۔ حکومت اس معاملے کو بے حد احتیاط اور غیر معمولی توجہ سے حل کرے۔ این پی ٹی کی معقول مالی امداد کی جائے۔ انتظامی معاملات اہل تجربہ کار اور پر خلوص افراد کے ہاتھوں میں دیے جائیں تاکہ این پی ٹی کے اخبارات بھی صحت مند صحافت کی بنیاد پر دوسرے اخبارات کے مقابلے پر آ سکیں۔
مسٹر اقبال یوسفی نے آئندہ پروگرام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک پریس سینٹر قائم کرنا چاہتے ہیں ایک وسیع اور معقول لائبریری بھی قائم کرنے کی خواہش ہے جہاں اخبارات کے تمام کارکن صحافی بھی آ سکیں گے ایک ایمبولنس سروس کا قیام بھی ہمارے مقاصد میں شامل ہے کم آمدنی والے صحافیوں کے بچوں کو وظائف اور ان کی استعداد بڑھانے کے لیے تعلیمی اور کھیلوں کے مقابلے بھی منعقد کروائے جائیں گے۔ بے گھر صحافیوں کے لیے رہائشی سہولتوں کی فراہمی بھی ممکن بنائی جائے گی انہوں نے کہا کہ ان کی تنظیم کے ساتھ ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ متعدد صحافی بیروزگاری کی صورت میں تنظیم کی رکنیت حاصل کر لیتے ہیں لیکن جب کسی بڑے ادارے سے وابستہ ہو جاتے ہیں تو تنظیم کوبھلا دیتے ہیں اس وقت تنظیم کے متعدد سابق اراکین قومی اخبارات کے ایڈیٹر ہیں اور بعض اہم عہدوں پر فائز ہیں۔