

پاکستان فری لانس جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر اقبال یوسفی کا نام صحافیوں کے حقوق کی جدوجہد کے لیے پاکستان سمیت عالمی سطح پر جانا پہچانا جاتا ہے اور دنیا بھر سمیت پاکستان میں اخباری دنیا کے لوگ انہیں مددگار کے طور پر زیادہ جانتے ہیں۔ یہ خاموش طبع درویش صفت انسان دنیا بھر کے صحافیوں کے مسائل سے بھرے دستی بیگ کو بغل میں دبائے بغیر کسی لالچ کے سردی گرمی سے عاری ان کے حل کے لیے دن بھر سرگرداں نظر آتا ہے اور ہاں اگر یہاں کسی غریب صحافی کارکن کی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کا مسئلہ ہو، کسی کے بچے بچی کو سکول اور کالج میں حق دلوانا ہو یا کسی غریب صحافی کو ہسپتال میں علاج یا ادویات کا مسئلہ درپیش ہو تو اس شخص کو اس وقت تک نیند نہیں آتی جب تک کسی ضرورت مند صحافی کا مسئلہ حل نہ ہو جائے۔
اقبال یوسفی پچھلے 20 سال سے فری لانس جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے راہ اللہ صحافیوں کے مسائل اور ان کے حقوق کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ صحافیوں کی خدمات کے صلہ میں انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے انہیں اپنا ممبر بنایا اور اقبال یوسفی اس طرح پاکستان میں اب تک انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کے واحد ممبر صحافی ہیں۔ صحافت نے اپنے قارئین کو فری لانس جرنلزم اور اس کے اعزاض و مقاصد سے روشناس کرانے کے لیے پاکستان فری لانس جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر اقبال یوسفی کے ایک انٹرویو کا اہتمام کیا جو حاضر خدمت ہے۔
صحافت: اقبال یوسفی صاحب فری لانس جرنلزم کا کیا مطلب ہے اور اب تک آپ نے اس پلیٹ فارم سے کیا خدمات انجام دی ہیں۔
جواب: فری لانس جرنلزم سے مراد ہے کہ آزاد صحافت یعنی کوئی ایسا صحافی جو کسی اخبار، میگزین میں ملازمت نہ کر رہا ہو بلکہ اپنی مرضی سے سیاست، ثقافت، سماجی، معاشی، علاقائی اور بین الاقوامی مسائل پر حقیقت پر مبنی لکھے اسے فری لانس جرنلسٹ کہتے ہیں اور دنیا بھر کے علاوہ یورپ میں ان کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان کی اہمیت اور احترام بھی مسلم ہے۔ پاکستان میں پہلے فری لانس جرنلزم کا کوئی تصور نہیں تھا بلکہ اس تصور کو اجاگر کرنے میں معروف صحافی اے ٹی چوہدری (مرحوم) جو ٹرسٹ کے اخبار پاکستان ٹائمز اور بعد میں دی مسلم کے چیف ایڈیٹر تھے جب اپنی ایڈیٹر شپ سے فارغ ہوئے تو ہم نے مل کر فری لانس جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی باوجود اس کے کہ پاکستان میں ان کے ارکان کی تعداد اتنی زیادہ نہیں لیکن کے باوجود اس کے ہم نے آزاد صحافیوں کی اس تنظیم کو اپنی بساط وسائل سے بڑھ کر متحرک کیا اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو بھی فری لانس جنرلسٹ ممالک کی فہرست میں لا کھڑا کیا اور اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت ہماری تنظیم پاکستان کی واحد تنظیم ہے جو صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کی رکن ہے اور اس کو تمام دنیا سے ریفرنسز آتے ہیں اس کے علاوہ پاکستان کے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ سال میں ایک بار اقوام متحدہ کے زیر اہتمام دنیا بھر کے چیدہ چیدہ صحافیوں کی ایک واٹر کانگرس کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں پاکستان سے بھی ہماری ایسوسی ایشن کا نمائندہ شرکت کرتا ہے اور اس کانگرس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے صحافی آپس میں باہم مسائل پر تبادلہ خیال کے بعد ان کے حل کے لیے تجاویز مرتب کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ہماری ایسوسی ایشن پاکستان میں اگر کوئی صحافی جرات مندانہ کارنامہ یا معاشرے کی برائیوں کو منظر عام پر لاتا ہے تو نہ صرف یہ کہ اس کی حوصلہ افزائی کیا کرتے ہیں بلکہ صحافی کو بین الاقوامی سطح پر متعارف بھی کرواتے ہیں۔
ہماری ایسوسی ایشن ہر سال تحریک پاکستان میں حصہ لینے والے صحافیوں کے اعزاز میں تقریب کا انتقاد کر کے ان میں سے ایک منتخب کو قائدا اعظم بیج لگاتی ہے۔ اب تک فری لانس جرنلسٹس ایسوسی ایشن کا تحریک پاکستان میں کردار ادا کرنے والے صحافیوں جناب ممتاز احمد خان، ڈاکٹر ضیاء الاسلام، زیڈ اے سلہری (مرحوم) بی اے قریشی، اسماعیل ذبیح، سید انوار ظہوری شامل ہیں ہماری ایسوسی ایشن ٹھوس اور تعمیری کاموں پر زیادہ توجہ دیتی ہے اور ہماری اس پالیسی کا سب سے زیادہ فائدہ ورکنگ جرنلسٹ کو ہوتا ہے اب تک ہم اے ڈی مرزا سے لے کر رانا اقبال (مرحوم) تک ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے اپنے وسائل سے بڑھ کر مالی امداد کی جس کی سب سے بڑی مثال رانا اقبال (مرحوم) کی ہیں جن کا شمار دیانت دار اور فرض شناس صحافیوں میں ہوتا تھا اور انہیں بلاوجہ ملازمت سے فارغ کر دیا گیا جس کے صدمے سے وہ شدید علیل ہو گئے ہم ان کے پیچھے ہسپتال گئے ان کے نامہ حالات دیکھتے ہوئے ہم نے اپنے وسائل سے فوری طور پر 50 ہزار روپے انہیں دلوائے اور بعد میں مرکز اور صوبے کی حکومتوں پر زور دے کر 75 ہزار روپے منزید منظور کروایا گیا لیکن افسوس ہماری کوششوں کے باوجود علاج کے لیے باہر نہ جا سکے کیونکہ ہمارے پاس ان کی اہلیہ کو ساتھ بھیجنے کے وسائل نہیں تھے اور اس مجبوری میں ہم رانا اقبال کو موت کے منہ سے نہ بچا سکے۔ یہاں پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ بلکہ ہمارے صحافیوں کا یہ علمیہ ہے کہ ہر طبقہ بے حسی کا شکار ہوتا جا رہا ہے اگر خدانخواستہ کوئی صحافی بیمار پڑ جائے یا فوت ہو جائے تو اس کی امداد کے لیے ہمارے صحافی بھائی کارامد ثابت نہیں ہوتے اس سے زیادہ اور دکھ کی کیا بات ہوگی کہ اگر کوئی صحافی مر جائے تو بہت قریبی دوست ہی اس کے جنازے میں جاتے ہیں۔ یہاں میں بتاؤں گا کہ ہماری ایسوسی ایشن نے جنگ اخبار کے مالک میر خلیل الرحمن اس کے بعد تکبیر کے ایڈیٹر صلاح الدین مرحوم اور اب تک اب تازہ ترین معروف تحریک پاکستان کے کارکن زیڈ اے سلہری کی وفات پر قرآن خوانی اور رسم قل یا رسم چہلم میں شرکت کرنے کوئی نہیں آیا جس پر ہمیں تینوں بار شرمندگی اٹھانا پڑی لیکن یہاں میں نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر جناب مجید نظامی کا ذکر ضرور کروں گا وہ ان نیک کاموں میں سب سے آگے ہوتے ہیں زیڈ اے سلہری بے شک ان کے گروپ کو چھوڑ کر دوسرے گروپ کے اخبار میں چلے گئے تھے لیکن وہ زیڈ اے سلہری کی وفات پر سب سے آگے تھے وہ زیڈ اے سلہری سے متعلق ہر تقریب میں شامل ہوئے اور انہیں اچھی کوریج بھی دی اس لیے انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس نے آزادی صحافت کے بین الاقوامی دن کے موقع پر جناب مجید نظامی کو پاکستان کے نظریاتی اساس اور ملک و قوم کے مفاد میں بے باک اور جرات مندانہ فنی کردار ادا کرنے پر صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کی طرف سے انہیں ایک یادگار ایوارڈ بھیجا جس کے لیے ہم نے مجید نظامی کو چنا۔
صحافت: یوسفی صاحب کیا آپ کو اپنی ایسوسی ایشن چلانے کے لیے بیرون ممالک یا پاکستان حکومت کی طرف سے کسی قسم کی کوئی امداد ملتی ہے اور کیا آپ اس کی ایسوسی ایشن نے بین الاقوامی سطح پر کوئی کارنامہ سر انجام دیا ہے ؟
جواب آپ کا سوال بہت اچھا ہے میں یہاں واضح کرنا چاہوں گا کہ ہمیں آج تک کسی بھی پاکستانی حکومت یا غیر ملکی صحافیوں کی تنظیموں نے ایک پائی کی بھی امداد نہیں دی ہم جو کچھ کرتے ہیں صرف اپنے ممبران سے چندہ اکٹھا کر کے کرتے ہیں مختلف تقریبات کے لیے بھی ہم کسی سے ایک پیسہ نہیں مانگتے اور اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں لیکن یہاں یہ بات بھی ضروری ہے کہ ہماری مختلف صحافتی تنظیمیں اس وقت صحافیوں کی فلاح و بہبود یا ان کے حقوق کی جدوجہد نہیں کر رہیں۔ صحافتی تنظیمیوں کے عہدے دار منتخب ہو کر مختلف طریقوں سے اپنے لیے پیسے اکٹھے کرتے ہیں اور کھا جاتے ہیں لیکن جو اصل میں صحافیوں کے لیے کام کرنے والے ہیں ان کی انہیں کسی بھی طرف سے حوصلہ افزائی نصیب نہیں ہوتی۔
آپ کے سوال کے دوسرے حصے کا جواب ہے کہ جب سے ہماری ایسوسی ایشن صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کی رکن بنی ہے ہماری ذمہ داریاں پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہیں اور ہم نے بین الاقوامی سطح پر مختلف ممالک کے صحافیوں کو درپیش مسائل ان کی قید و بند کی مصیبتوں کے خلاف آواز اٹھائی اور کامیابی پائی یہاں پر ایک تازہ ترین واقعہ بیان کروں گا کہ آسٹریلیا کی صحافتی تنظیم نے ہمیں ایک خط لکھا کہ افریقہ کے ایک ملک ٹونگا میں چار صحافیوں کو پارلیمنٹ اور حکومت کے خلاف لکھنے کی پاداش میں گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا جس پر میں نے ٹونگا کے وزیراعظم کو ایسوسی ایشن کی طرف سے خط لکھا اور ڈپلومیسی تحریر کے ذریعے انہیں پریس اور حکومت کے درمیان تعلقات خوشگوار رکھنے اور تعاون وغیرہ پر مشتمل الفاظ لکھتے ہوئے ان چار صحافیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تو آپ یقین مانیں کہ ٹونگا کے وزیراعظم نے ان چاروں گرفتار صحافیوں کو رہا کرنے کے بعد مجھے فیکس کے ذریعے اطلاع دی اسی طرح ہم برازیل کے ایک صحافی کے ذاتی کیس کو ڈیل کر رہے ہیں اور برازیل حکومت کے ساتھ ہماری بات چیت چل رہی ہے۔ آپ اس کے علاوہ دنیا بھر میں دیکھ رہے ہیں صحافتی تنظیمیں صحافیوں کے حقوق کے لیے اتنی متحرک ہیں جو ہماری سمجھ سے باہر ہے اس ضمن میں میں آپ برطانیہ نیشنل یونین آف جرنلسٹس کی مثال ہی لے لیں جس نے ایک اخبار سے نکالے جانے والے کے حقوق کے لیے عدالت میں مقدمہ لڑا اور اس مقدمے پر پاکستانی کرنسی میں سات کروڑ خرچ کر دیے جس کا ہم یہاں تصور بھی نہیں کر سکتے اس کے علاوہ ہماری تنظیم انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کا اپنا پورا سیکرٹریٹ ہے جہاں سینکڑوں کا عملہ کام کرتا ہے۔ ان کے متحرک ہونے اور فنڈز کی فراوانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب الجزائر میں خانہ جنگی ہوئی تو اس دوران صحافیوں کا بھی قتل عام کیا گیا۔ اس پر ائی ایف جے نے اقوام متحدہ کے ذریعے اپیلیں بھی کیں لیکن جب یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو ائی ایف جے نے الجزائر سے ان تمام صحافیوں کو جن کی جانوں کو خطرہ تھا وہاں سے نکالا اور انہیں اپنے خرچے پر بیلجیئم میں پناہ دی اور انہیں اب تک وہاں زندگی کی تمام سہولیات میسر ہیں۔
صحافت: اقبال یوسفی صاحب آپ کے خیال میں کیا ہمارے ہاں اخبارات کو آزادی ہے اور کیا حکومت اخبارات پر دباؤ ڈال کر اپنے حق میں استعمال کر سکتی ہے ؟
اقبال یوسفی: آزادی صحافت محمد خان جونیجو کے دور سے قبل کا مسئلہ تھا جب لکھنے پر پابندی تھی اور مارشل لا کی حکومت اخبارات کا گلہ گھونٹنے کی مختلف تراکیب استعمال کر کے اخبارات کو اپنے حق میں لکھنے پر مجبور کر دیتی تھی لیکن محمد خان جونیجو اور جمہوریت کی بحالی کے بعد آزادی صحافت کا اب کوئی مسئلہ باقی نہیں رہا اور اخبارات نے بحال جمہوریت کے بعد آزادی صحافت کا تقدس پامال نہیں ہونے دیا جو کہ ایک اچھی روایت ہے جو بعد میں آنے والی حکومتوں کو بھی اپنانا پڑی۔ اگر آج کوئی اخبار نواز شریف کے حق میں لکھتا ہے تو یہ اس کی ذمہ داری ہے حکومت کی طرف سے کسی اخبار پر کوئی دباؤ نہیں اور میرے خیال میں اب حکومت اخبارات کے خلاف اشتہارات کا کلہاڑا بھی استعمال نہیں کرتی اور اگر اب حکومت کسی اخبار کا اشتہار بند بھی کرتی ہے تو یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چلتا اور حکومت اشتہار دوبارہ بحال کر دیتی ہے اس موقع پر میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ اگر کسی بڑے اخبار پر حکومت دباؤ ڈالتی ہے تو ساری اخباری صنعت کے کارکن حکومت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں اور حکومت کو کارکنوں کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کر کے اپنے حق میں فیصلہ کروا لیتے ہیں لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ جب کسی صحافی کو اخبار سے نکالا جاتا ہے یا صحافیوں کو اجتماعی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اخباری مالکان ان کا حال معلوم نہیں کرتے اگر یہی کارکن اخباری مالکان کو اپنی طاقت نہ دیں تو آج بڑے بڑے اخباروں کا ناطقہ کا بند ہو چکا ہوتا پہلے وقت میں اگر کوئی شخص اپنی خبر لگوانے کے لیے رپورٹر یا نیوز ایڈیٹر کی دراز میں کچھ سو روپے رکھ کر آتا تھا تو یہ لوگ جب تک اس شخص کے پیسے واپس نہیں کرتے تھے انہیں اس وقت تک چین نصیب نہیں ہوتا تھا لیکن صحافت میں کرپشن کے فروغ پر نظر دوڑائی جائے تو اس میں حکومتوں نے بھی لفافہ جرنلزم میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ حکومتوں نے اپنے منظور نظر صحافیوں کو پلاٹ، پیسے دے کر دوسری جماعتوں کے لیے بھی اس بری روایت کے دروازے کھولے ہیں۔ اس دور میں آج یہاں جرنلزم میں جو برائیاں پائی جاتی ہیں اس کی وجہ سے صحافت اور صحافی برادری بے وقعت ہو کر رہ گئی ہے اب تو لکھنے کا بھی اثر نہیں ہوتا۔
یہاں میں نجم سیٹھی جیسے اخبار نویس کا ذکر ضرور کروں گا جس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا اور اس کے لیے وہ کام کرتا رہتا ہے۔ پتہ نہیں اس کے کیا عزائم ہیں اور کون اس سے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے جیسے کام لے رہا ہے۔ جب اسے حکومت نے گرفتار کیا تو ہمیں کہا گیا کہ اس کی گرفتاری کے خلاف پاکستان اور عالمی سطح پر آواز اٹھائی جائے لیکن میں نے انکار کرتے ہوئے یہ مطالبہ کرنے والوں سے کہا کہ مجھے یہ شخص محب وطن نظر نہیں آتا اس کی سرگرمیاں مشکوک ہیں اس لیے میں اس کی گرفتاری پر احتجاج نہیں کر سکتا۔ دوسری اہم مثال فرنٹیئر پوسٹ کے ایڈیٹر احمد شاہ افریدی کی ہے جس کی گرفتاری پر بھی ہم نے احتجاج نہیں کیا لیکن حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان پر لگائے کا الزامات کی ٹھوس بنیادوں پر شفاف طریقے سے تفتیش کی جائے اور ان کا ڈیکلریشن واپس لیا جائے۔
ہماری اخباری دنیا کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں چور، ڈاکو سمگلر، کالے دھن والے اور سرمایہ دار اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اخبارات نکال کر اس کی آڑ لے رہے ہیں لیکن یہ معاملہ بھی اب زیادہ دیر نہیں چلے گا صحافی برادری کو اپنے اندر کالی بھیڑوں کا پتہ چل چکا ہے۔
صحافت: اقبال یوسفی صاحب ماضی کی کوئی اہم بات بتائیں جو قارئین کی دلچسپی کا باعث ہو۔
اقبال: یہاں میں یہ کہوں گا کہ ہمارے وزیراعظم نواز شریف میرے اس وقت کے دوست ہیں جب انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم نہیں رکھا تھا اور ابھی اتفاق برادرز کے ایم ڈی تھے۔ میرے اور وزیراعلی شہباز شریف دونوں کے بالکل ساتھ ساتھ کمرے تھے۔ جب ان کے ہاں جاتا تو دونوں بھائی بڑے خلوص سے ملتےلیکن جب سے انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا اس کے بعد میں ان سے نہیں ملا اور آج نواز شریف وزیراعظم بن چکے ہیں۔
اس کے علاوہ جب بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم کی حیثیت سے یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے بھی کوئی صحافتی تنظیم اپنا ممبر بنائے تو میں نے انہیں خلیج ٹائمز اور وال اسٹریٹ جرنل میں مضامین لکھنے پر اعزازی ممبرشپ دی جس پر وہ خوش ہوئی لیکن بعد کی حکومتوں نے ہم پر دباؤ ڈالا کہ یہ ممبرشپ ختم کر دیں لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا۔ یہاں میں حکومت سے مطالبہ کروں گا کہ وہ فری لانس جرنلسٹس ایسوسی ایشن کو سپورٹ کرے تو صحافی برادری کے لیے ایک پروجیکٹ کے تحت سکول، رہائشی سکیم، ڈسکاؤنٹ سکیم کھولنا چاہتے ہیں لیکن مجبور ہیں ہمارے پاس ہے کچھ نہیں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں اور ہماری کوششیں صحافی برادری کے حقوق کے حصول پر ختم ہوں گی۔
یہاں میں اپنے انٹرویو کے دوران روزنامہ صحافت دوپہر کے چیف ایڈیٹر کارکن صحافی اور اپنے چھوٹے بھائی خوشنود علی خان کا ذکر ضرور کروں گا اور اپنے دیگر صحافی بھائیوں کو بھی ان کی مثال دوں گا کہ وہ خوشنود علی خان کی محنت اور ان تھک جدوجہد سے کچھ سیکھیں کہ انہوں نے ایک عام کارکن کی حیثیت میں کام شروع کیا اور اپنی خداداد صلاحیتوں کے بلبوتے پر آج دیگر سرمایہ دار اخباری مالکان کے مقابلے میں ایک بڑے اخبار کے مالک ہیں جو کارکن صحافیوں کے لیے خوشی کا مقام ہے۔ خوشنود علی خان نے ہمیشہ ہماری تنظیم کے ساتھ بہت تعاون کیا اور ہر مرحلے پر ہماری مدد کی آج جب میں خوشنود علی خان کی صورت میں ایک اخباری کارکن کو اخبار کا مالک دیکھتا ہوں تو مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے اور میں دیگر کارکن صحافیوں کو بھی یہی نصیحت کروں گا کہ وہ محنت کریں اللہ تعالی ان کی مدد ضرور کرے گا۔ اقبال یوسفی نے کہا کہ ایک دفعہ میں آسٹریلیا گیا تو وہاں کانفرنس کے موقع پر دیگر ممالک کے اخبار نویسوں سے بات چیت کے دوران انہوں نے خوشنود علی خان کے کالموں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ممالک کے ذمہ دار لوگ پاکستان کے چند کالم میں نویسوں میں سے خوشنود علی خان کے کالم کا ترجمہ کرنے کا ضرور مطالبہ کرتے ہیں ان کی زبان سے اپنے ایک ہم وطن کارکن کی شہرت سن کر میرا سر فخر سے بلند
ہو گیا۔