Showing posts with label آزادی صحافت. Show all posts
Showing posts with label آزادی صحافت. Show all posts

PFJA concerned about press freedom scenario (International Press Freedom Day


The Pakistan Freelance Journalists Association (PFJA) has voiced deep concern over the deteriorating press freedom situation in the country.

In a meeting chaired by PFJA President Iqbal Yousafi, the association strongly condemned the increasing incidents of attacks on press properties, terming them an attempt to harass journalists and silence the media. The meeting also deplored the growing violence against working journalists.

“At least 60 journalists were injured or subjected to violence last year while performing their duties, while another 18 were arrested in the line of duty,” Yousafi said.

The PFJA further demanded the immediate arrest of the perpetrators involved in the killing of six journalists who were shot dead during the past year.

Senior journalists Mazhar Ali Adeeb and Khalid Latif also attended the meeting.



پاکستان میں صحافیوں کی آزادی صحافت پر پی ایف جے اے کا اظہار تشویش

پاکستان فری لانس جرنلسٹس ایسوسی ایشن (پی ایف جے اے) نے ملک میں آزادی صحافت کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ایسوسی ایشن کے اجلاس کی صدارت صدر پی ایف جے اے اقبال یوسفی نے کی، جس میں صحافتی اداروں پر بڑھتے ہوئے حملوں کی مذمت کی گئی۔ اجلاس میں کہا گیا کہ یہ اقدامات صحافیوں کو ہراساں کرنے اور میڈیا کو دبانے کی کوشش ہیں۔ اجلاس نے صحافیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی پرتشدد کارروائیوں پر بھی افسوس ظاہر کیا۔

اقبال یوسفی نے کہا کہ ’’گزشتہ سال کم از کم 60 صحافی اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران زخمی یا تشدد کا شکار ہوئے جبکہ مزید 18 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا۔‘‘

پی ایف جے اے نے مزید مطالبہ کیا کہ ایک سال کے دوران قتل ہونے والے 6 صحافیوں کے قاتلوں کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔

سینئر صحافی مظہر علی عابد اور خالد لطیف نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔


PFJA Stages Protest Rally Against Killing of Journalist Hayatullah Khan

Lahore – The Pakistan Freelance Journalists Association (PFJA) staged a protest rally against the brutal killing of Hayatullah Khan, a journalist from North Waziristan Agency.

The protesters, led by PFJA President Iqbal Yousufi, appealed to the Chief Justice of the Supreme Court to take suo moto notice of the incident. Chanting slogans against the government, they demanded that the administration immediately arrest the kidnappers and killers of the tribal journalist.


پی ایف جے اے کا صحافی حیات اللہ خان کے قتل کے خلاف احتجاجی ریلی

لاہور – پاکستان فری لانس جرنلسٹس ایسوسی ایشن (پی ایف جے اے) نے شمالی وزیرستان کے صحافی حیات اللہ خان کے بہیمانہ قتل کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی۔

احتجاجی مظاہرین کی قیادت پی ایف جے اے کے صدر اقبال یوسفی نے کی۔ مظاہرین نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے واقعے کا ازخود نوٹس لینے کی اپیل کی۔ انہوں نے حکومت کے خلاف نعرے لگائے اور انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ قبائلی صحافی کے اغوا کاروں اور قاتلوں کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے۔




آہ ۔۔۔۔۔۔ اقبال یوسفی




آہ ۔۔۔۔۔۔ اقبال یوسفی  

ہفت روزہ مزدور 2 فروری 2008

تحریر: محمد بدر منیر 

  اٹھارہ اور انیس جنوری  کی درمیانی شب خواتین کی گریہ و زاری سے میری انکھ کھل گئی. میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔۔۔۔۔۔ کسی نے بتایا۔۔۔۔۔۔ اقبال فوت ہو گئے۔۔۔۔۔۔ یہ ایسی اطلاع تھی جس نے مجھے ذہنی طور پر درہم برہم کردیا۔ اگرچہ زندگی ایک فانی حقیقت کا نام ہے۔ لیکن اس پر مجھے یقین کرنے میں تامل تھا کہ اس کی صحت بھی بظاہر ٹھیک ٹھاک تھی اور ابھی اس نے بمشکل 60 کا زینہ عبور کیا تھا۔ اور پھر تھوڑی کے بعد اس کے بے جان جسد خاکی کو دیکھا جو خون آلود تھا۔ تو میں ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی تصویر بن گیا۔ کئی وسوسوں نے ذہن میں سر اٹھایا کہ کہیں یہ کوئی اور واردات نہ ہو۔۔۔۔۔۔ پھر ڈاکٹر کا یہ اعلان کسی نے سنایا کہ اقبال کو السر کی دیرینہ شکایت تھی اور السر پھٹنے کے باعث یہ سانحہ پیش آیا۔ اقبال کو بھی   اپنے مرض کو خود سے پوشیدہ رکھنے کی عادت تھی اور یہ بھی ہمارا ایک خاندانی ورثہ ہے جو جدامجد سے باحفاظت منتقل ہوتا آیا ہے۔ پھر تجہیز و تکفین سے تدفین تک سارے مرحلے طے ہوتے گئے اور میں سکتے کی حالت میں ان مرحلوں سے گزرتا گیا۔ 

اقبال۔۔۔۔۔۔ اقبال یوسفی کی ناگہانی جدائی نے مجھے اور دیگر اہل خاندان کو سخت افسردہ کر دیا۔ عزیز و اقارب کی جانب سے تعزیتی الفاظ زخم کو پھر سے ہرا کر دیتے۔۔۔۔۔۔ اقبال یوسفی جو والدین اور پورے خاندان کا لاڈلا تھا۔ اپنے دوستوں میں بے حد مقبول تھا۔ اپنے طالب علمی کے زمانے کے دوستوں اور اخباری کارکنوں کے لیے ہر وقت فکر مند رہتا۔ اور اپنے مسائل سے بے نیاز ہو کر دوسروں کے مسائل حل کرنے کے لیے سرگرم عمل رہتا تھا۔ سب رنگ کے مدیر شکیل عادل زادہ اس کے اردو کالج کے ہم سبق بھی تھے۔ جب سب رنگ کئی کئی ماہ غوطے کھا جاتا تو وہ مضطرب ہو کر شکیل کے ہاں ٹیلی فون کر کر کے اس کا ناک میں دم کر دیتا۔ کسی اخباری کارکن کا کوئی مسئلہ ہوتا تو اس وقت تک ارام سے نہیں بیٹھتا تھا جب تک کہ اس کارکن کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔ وہ اپنی امدنی کا بیشتر حصہ انہی لوگوں پر خرچ کر دیتا۔ اس نے نہ جانے کتنے کارکنوں کے لیے انہیں پلاٹ اور مکان قرض دلانے کے لیے جدوجہد کی لیکن خود کرائے کے مکان میں دائمی اجل کو لبیک کہا۔ ابھی حال ہی میں  "نوائے وقت" میں شائع شدہ اپنے مضمون میں صوبہ سرحد کے ایک شہید صحافی کے اہل خاندان کو پاکستان فری لانس جرنلسٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے کفالت کی مکمل ذمہ داری ادا کرنے کی پیشش کی تھی۔۔۔۔۔۔ 

 پاکستان فری لانس جرنلسٹس ایسوسی ایشن بتائی تھی اس کے تمام اخراجات وہ اپنی جیب سے ادا کیا کرتا تھا۔ صرف اخباری کارکنوں اور ساتھیوں تک اس کی دل سوزی اور ہمدردی محدود نہ تھی بلکہ جہاں سے بھی کوئی دردناک خبر آئی وہ بے چین ہو جاتا اور ان کے لیے ہر ممکن جدوجہد کرتا۔ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں اور کشمیر کے زلزلہ زدگان کے لیے نوائے وقت کے ریلیف فنڈ میں اقبال یوسفی نے عطیات جمع کرانے میں بساط بھر کام کیا۔  

 اقبال یوسفی۔۔۔۔۔۔ میرا بھائی تھا اور ہم سب کا لاڈلہ تھا۔ اس لاڈلے بھائی کے اندرونی دکھ کو کوئی بھی سمجھ نہ پایا۔ اس کے ساتھی بھی نہیں جن کے ساتھ اس کا سب سے زیادہ وقت گزرتا تھا۔ وہ ان کے درمیان سدا بہار خوش خوش رہتا۔ لیکن جب اس کی جدائی کا وقت آیا تو چند ہی لوگ اس کے پاس تھے۔ اگرچہ سینکڑوں افراد نے اس کو اخری منزل تک پہنچانے کے لیے ساتھ دیا۔ لیکن یہی وہ تھے پاس پڑوس کے لوگ تھے۔ یہ وہ عام لوگ تھے جن کے مسائل حل کرنے کے لیے وہ اپنی پیشاورانہ ذمہ داریوں کے دائرے سے باہر کوشش کرتا اور سبھی اس کی تعریف ہو توصیف کر رہے تھے اور گریہ کنا تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمد بدر منیر